گھریلو عورت ولایت کے ایک اونچے درجے پر فائز ہوتی ہے. ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ اُﭨﮭﮯ
ﺳﺤﺮﯼ ﺑﻨﺎئے اور خود ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎئے. ﭘﮭﺮ دن بھر ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ،
ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ لیے کھانا بناتی ہے، ﭘﮭﺮ ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮہر ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ لیے ﺟُﺖ ﺟﺎﺗﯽ ہے.
ﭘﮑﻮﮌﮮ ، ﺩھی ﺑﮭﻠﮯ ، چنا چاٹ ، فروٹ چاٹ ﺍﻭﺭ نہ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ، ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺩﮬﮍﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﻮہر ،
ﺑﺎﭖ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﮯ ہیں ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ…؟
ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﭘﮑﻮﮌﮮ تلتی ﺭہے ﮐﮧ گھر والوں کو ﺑﺎﺳﯽ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭘﺴﻨﺪ جو ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺳﺐ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ مسکین بھی ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ہے۔
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﯽ رہتی ہے کہ کسی کے آگے کوئی چیز کم تو نہیں ہو گئی.
افطاری ختم لیکن عورت کا کام ختم نہیں ہوا ﺑﻠﮑﮧ اُس کو گھر والوں کے لیے ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﮯ بعد رات کا کھانا بھی تیار کرنا ہے. ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ہو ﺟﺎﺗﯽ ہے.
ﺍﻭر ہاں! ﺍﺳﮯ ﺻﺒﺢ ﺗﯿﻦ ﺑﺠﮯ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ہے اور برتن بھی دھونے ہیں.
ﺍﻻﺭﻡ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ لگانا ہو ﮔﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ آنکھ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ہو ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍُﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ بھی ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ہو ﮔﺎ.
بہت ہی کم لوگ ہوں گے جن کے منہ سے غلطی سے تعریف کے دو بول نکل آئیں کہ آج افطار پہ بنی ہوئی چیزیں بہت مزے کی تھیں۔
Leave a Reply