Current Time

Pakistan's Best News Websites

آنکھوں کے راز: جانوروں کی نظر سے ان دیکھی دنیا کا سفر۔

آنکھوں کے راز

ذرا تصور کریں، اگر دنیا کی حقیقت ویسی نہ ہوتی جیسی ہم دیکھتے ہیں۔ اگر رنگوں کے معنی بدل جاتے، روشنی کی کوئی ضرورت نہ رہتی، اور نظروں سے اوجھل مناظر اچانک نمایاں ہو جاتے۔

وہی آسمان، وہی درخت، وہی پھول، مگر ہر چیز ایک انوکھے انداز میں جگمگانے لگتی۔ شاید گھاس سیاہ دکھائی دیتی، پھولوں پر خفیہ نشانات چمکنے لگتے یا روشنی کے بغیر بھی سب کچھ واضح نظر آتا۔

ہر منظر ایک نیا راز کھولتا، ہر چیز ایک ان دیکھی حقیقت کا پتہ دیتی۔ یہ وہ دنیا ہے جو ہمیشہ ہمارے اردگرد رہی، مگر ہم نے کبھی اسے جانا ہی نہیں!

اگر آپ کی آنکھیں سانپ کی آنکھیں ہوتیں، تو یہ سب بدل جاتا۔ رنگ اور روشنی دونوں بے معنی ہوتے انکی جگہ ہر چیز کی گرمی کی جھلک آپ کی نظر میں آتی۔

کسی دوسرے جاندار کو دیکھنے کے لیے اس کے جسم کے رنگ نہیں بلکہ اس کے جسم سے نکلتی ہوئی حرارت کا عکس نظر آتا۔

گھاس کا میدان سیاہ اور مدھم نظر آتا کیونکہ وہ زیادہ گرمی جذب نہیں کرتا، لیکن اگر کہیں کوئی چوہا چھپا ہوتا، تو وہ ایک چمکتے ہوئے سرخ دھبے کی طرح دکھائی دیتا۔

اس کی جسمانی حرارت اسے ظاہر کر دیتی، چاہے وہ کتنی ہی گھنی گھاس میں کیوں نہ چھپا ہو نیز آپ کو اندھیرے میں بھی روشنی کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ آپ کے لیے دنیا “تھرمل امیج” جیسی دکھائی دیتی ہر جاندار اور بے جان چیز صرف اپنی حرارت سے پہچانی جاتی۔

اب ذرا سوچیں، اگر آپ کی آنکھیں شہد کی مکھی کی آنکھیں ہوتیں، تو جو باغ آپ کو ابھی تک ایک عام باغ لگ رہا تھا، وہ اچانک ایک “جادوئی رنگین دنیا” میں بدل جاتا۔

آپ کو وہ رنگ نظر آتے جو عام انسانوں کو کبھی نظر نہیں آ سکتے مثلاً ہر پھول کے اندر وہ “الٹرا وائلٹ نشانات” چمکنے لگتے جو مکھیوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں، ایسے نشانات جو کسی انسان کو کبھی نظر نہیں آ سکتے۔

گلاب کا پھول شاید آپ کے لیے زیادہ خوبصورت نہ ہو، کیونکہ شہد کی مکھیاں “سرخ رنگ” نہیں دیکھ سکتیں، لیکن نیلا اور بنفشی رنگ، وہ آپ کے لیے سب سے نمایاں اور چمکدار ہوتے۔

دنیا کی ہر چیز زیادہ روشن، زیادہ چمکتی ہوئی اور زیادہ گہرے پیغامات لیے ہوئے نظر آتی، جیسے کوئی خفیہ زبان ہو جو صرف مکھیاں پڑھ سکتی ہیں۔

اگر آپ “بلی کی آنکھوں” سے دیکھتے، تو آپ کو دن کے وقت سب کچھ دھندلا اور کم رنگین لگتا، جیسے کسی نے ٹی وی کا کنٹراسٹ کم کر دیا ہو۔

لیکن جیسے ہی رات ہوتی، آپ کی آنکھیں جادوئی طور پر جاگ اٹھتیں۔ جہاں عام انسان گھپ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہوتا، وہاں آپ کو ہر چیز تاریکی میں بھی بالکل واضح نظر آتی۔

روشنی کا ایک معمولی سا ذرہ بھی کافی ہوتا کہ آپ ماحول کا پورا نقشہ کھینچ سکیں۔ شاید آپ کو محسوس ہوتا کہ آپ “نائٹ وژن” کے مالک ہیں اور حقیقت میں، آپ ہوتے بھی۔

اگر آپ کی آنکھیں ہرن یا بارہ سنگھا کی ہوتیں، تو آپ ایک ماہر کھوجی بن جاتے۔ برف سے ڈھکا جنگل، جو عام انسانوں کے لیے محض ایک بے سفید چادر ہے، آپ کے لیے کسی نقشہ میں موجود نشانات اور سراغوں سے بھرا ہوتا۔ الٹرا وائلٹ (UV) شعاعوں کو دیکھنے کی صلاحیت آپ کو وہ معمولی نشان بھی دکھا دیتی جو عام آنکھ سے اوجھل ہوتے۔ برف پر کسی جانور کے تازہ قدم، گھاس پر شکاری کے چھپنے کی ہلکی سی جھلک، یا کسی پرندے کے پروں میں چھپے وہ خفیہ دھبے جو اسے الگ پہچان دیتے ہیں۔ کوئی شکار جتنا بھی ہوشیار ہوتا، آپ اس کے جسم سے نکلنے والے پوشیدہ UV عکس کی مدد سے اس کی موجودگی بھانپ لیتے۔ یہ دنیا اب محض رنگوں سے نہیں، بلکہ روشنی کے خفیہ کوڈز سے بھری ایک کہانی بن جاتی، اور آپ وہ کھوجی ہوتے جو ہر اشارہ پڑھ سکتے۔

اور اگر آپ “چمگادڑ کی آنکھیں” رکھتے، تو آپ کے لیے دیکھنے کا تصور ہی بدل جاتا۔ روشنی اور رنگ کوئی معنی نہ رکھتے، کیونکہ آپ کی دنیا “آواز کی بازگشت” سے بنی ہوتی۔ جیسے ہی آپ کوئی آواز نکالتے، وہ اردگرد کی چیزوں سے ٹکرا کر واپس آتی، اور آپ اس گونج سے “دیکھ” سکتے کہ آپ کے آس پاس کیا ہے، کتنا قریب ہے، اور کس شکل و ہیت میں موجود ہے۔ دوسرے جاندار کی مکمل صورت کا علم آپکے پاس ہوتا یہ ایک ایسا وژن ہوتا جو کسی عام انسان کی سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ گویا آپ آنکھوں کے بغیر بھی دیکھ سکتے۔

اگر آپ کی آنکھیں “عقاب” کی ہوتیں، تو سمجھیں کہ آپ کے اندر ایک قدرتی دوربین نصب ہوتی۔ آپ سینکڑوں میٹر کی بلندی سے زمین پر چلتے ہوئے ایک ننھے چوہے کو ایسے دیکھ سکتے جیسے وہ بالکل قریب ہو، کیونکہ آپ کی نظر عام انسانی آنکھ سے آٹھ گنا زیادہ تیز ہوتی۔ فٹبال کے میدان کے دوسرے سرے پر پڑی گھاس کی ہر پتی الگ الگ دکھائی دیتی، اور ہر رنگ پہلے سے زیادہ گہرا اور نمایاں محسوس ہوتا۔ مگر سب سے حیرت انگیز صلاحیت وہ ہوتی جو ہمیں دکھائی بھی نہیں دیتی—الٹرا وائلٹ روشنی دیکھنے کی طاقت! یہ آپ کو شکار کے ایسے نشانات دکھاتی جو عام انسانی آنکھ کے لیے بالکل پوشیدہ ہوتے، جیسے جانوروں کی کھال سے نکلنے والے خفیہ عکس یا زمین پر باقی رہ جانے والے مدھم نشان۔ جہاں ایک عام انسان کو محض ایک سادہ منظر دکھائی دیتا، وہاں آپ کے لیے ہر چیز ایک “ہائی ڈیفینیشن اسکرین” پر چلتی فلم کی طرح نظر آتی، جہاں دوریاں سمٹ جاتیں اور دنیا اپنی اصل تفصیلات میں نمایاں ہو جاتی۔

اگر آپ کی آنکھیں کیکڑے کی ہوتیں، تو آپ کیلئے یہ دنیا زیادہ رنگین ہوتی خاص طور پر اگر آپ “مینٹس شرِمپ” کی آنکھوں سے دنیا دیکھ سکتے، تو یہ عام انسانی نظر سے تیرہ گنا زیادہ رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے جہاں عام انسان صرف تین بنیادی رنگوں (سرخ، سبز، نیلا) کو ملا کر دنیا دیکھتے ہیں، وہاں آپ کو ہر چیز میں سولہ مختلف رنگوں کی باریکیاں دکھائی دیتیں، حتیٰ کہ وہ انفراریڈ اور الٹرا وائلٹ روشنی بھی جو عام انسانی آنکھ کے لیے بالکل پوشیدہ ہے۔ شاید آپ کو کسی عام پتھر پر بھی روشنی کے ایسے چمکتے ہوئے پیٹرن دکھائی دیتے جو دوسرے انسانوں کو کبھی نظر نہ آ سکتے، اور پانی کے اندر کی دنیا، جو عام طور پر نیلے اور دھندلے رنگوں میں گھری نظر آتی ہے، آپ کے لیے ایک روشن اور جادوئی لینڈ اسکیپ بن جاتی۔

اگر آپ کٹل فِش کی آنکھوں سے دنیا دیکھ سکتے! رنگ مکمل طور پر غائب ہو جاتے، کیونکہ اب آپ کلر بلائنڈ ہیں، مگر اب بھی آپ کے پاس ایسی انتہائی جدید آنکھیں ہیں جو کسی اور مخلوق کے پاس نہیں۔ یہ حیرت انگیز حد تک ترقی یافتہ آنکھیں، جن کی پتلی منفرد “W” شکل کی ہوتی ہے، روشنی کی “پولرائزیشن” کو محسوس کر سکتی ہیں۔ یعنی یہ دیکھ سکتی ہیں کہ روشنی مخصوص سمتوں میں کیسے حرکت کر رہی ہے، ایک ایسا راز جو عام آنکھوں کے لیے پوشیدہ رہتا ہے۔ پانی کے نیچے، جہاں باقی سب کو بس مدھم روشنی اور بے رنگ منظر دکھائی دیتا ہے، وہاں آپ کے لیے ہر چیز ایک خفیہ زبان میں لکھی نظر آتی ہے۔ روشنی کے زاویے بدلتے ہیں، سائے کہانیاں سناتے ہیں، اور ہر منظر ایک نیا راز فاش کرتا ہے۔ یہ دنیا کو صرف دیکھتی نہیں، بلکہ روشنی کو “محسوس” کرتی ہے، ایک ایسی صلاحیت جو کسی جادوئی نظر سے کم نہیں۔

اور اگر آپ کی آنکھیں “مینڈک” کی ہوتیں، تو یہ دنیا ایک پینورامک تھیٹر میں بدل جاتی۔ آپ بیک وقت آگے، دائیں، بائیں، اور اوپر دیکھ سکتے، جیسے آپ کے سر پر 360 ڈگری کی قدرتی اسکرین لگی ہو۔ مگر آپ کا وژن عام آنکھوں سے بالکل مختلف ہوتا۔ اگر کوئی چیز ساکن ہو، تو وہ گویا آپ کی نظروں سے غائب ہو جاتی۔ مگر جونہی کوئی چیز حرکت کرتی، وہ فوراً چمکنے لگتی، جیسے کسی نے اس پر روشنی ڈال دی ہو، کیونکہ مینڈک کی آنکھیں صرف حرکت کرنے والی چیزوں کو دیکھنے کے لیے بنی ہیں۔ اور اندھیرے کی فکر نہ کریں! رات کے وقت بھی آپ کی آنکھیں روشنی کے معمولی ترین ذرات کو جذب کرکے آپ کو ماحول دکھانے کی صلاحیت رکھتیں۔ اگر آپ پانی میں ہوتے، تو بھی آپ کو سب کچھ بالکل واضح نظر آتا، کیونکہ آپ کے وژن کے لیے پانی اور خشکی میں زیادہ فرق نہ ہوتا۔ گویا آپ کی آنکھیں ہمیشہ ایک “ناختم ہونے والی فلم” دیکھنے میں مصروف رہتیں، جہاں ہر حرکت ایک جیتا جاگتا منظر بن جاتی۔

یہ جاننا کہ جانور کس طرح دنیا کو دیکھتے ہیں، ہمیں احساس دلاتا ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو ہم دیکھتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو ہم دیکھنے سے قاصر ہیں۔ یہ دنیا محض ہماری، یعنی انسانی آنکھوں سے گھڑی ہوئی ایک تصویر نہیں، بلکہ ہر جاندار کی آنکھیں اپنی ایک منفرد دنیا تخلیق کرتی ہیں، جہاں رنگ، روشنی اور سائے سب کے معانی الگ ہوتے ہیں۔ جو ہمارے لیے مدھم اور بے رنگ ہے، وہ کسی اور کے لیے روشنی سے بھرا ایک حیرت انگیز جہان ہو سکتا ہے۔

تو اگلی بار جب آپ کسی بلی کو اندھیرے میں بے خوف گھومتے، کسی مکھی کو خاص رنگ کے پھول پر منڈلاتے، کسی سانپ کو گھنی گھاس میں چھپے شکار کو محسوس کرتے، کسی چمگادڑ کو تاریکی میں راستہ بناتے، کسی ہرن کو برف پر ان دیکھے نشانات پڑھتے، یا کسی کیکڑے کو پانی میں روشنی کے پوشیدہ رنگ پہچانتے دیکھیں تو ایک لمحے کے لیے رکیں اور سوچیں۔ کیا حقیقت وہی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے؟ یا اس کے کئی ایسے رنگ اور زاویے ہیں جو صرف اُن آنکھوں پر عیاں ہوتے ہیں جو انہیں دیکھنے کے قابل ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • X (Twitter)
  • Facebook
  • LinkedIn
  • More Networks
Copy link