الہیٰ بخش کو پہلی نظر میں عشق ہوا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں- اس کا خمیر ہی عشق کی مٹی سے اٹھا تھا. بچپن ہی سے وہ عشق و محبت کی باتیں سنتا رہا تھا- اس وقت سے جب اسے محبت کے “م” اور عشق کے “ع” کی پہچان بھی نہیں تھی- محبت اور عشق کی تلقین اس کے باپ کا وظیفہ تھا- وہ ہر وقت اس عشق اور محبت کی بات کرتا، جو انسان ہونے کے ناتے اس پر اور اس کی آنے والی نسلوں پر فرض تھی اور یہ تعلیم اسے اس کے بزرگوں نے اسی طرح دی تھی- وہ نسلاٰ عاشق تھے-
الہیٰ بخش کی سمجھ میں اپنے باپ کا فلسفہء عشق کبھی نہیں آیا- ابتدا میں تو وہ سمجھنے کے قابل ہی نہیں تھا- باپ بھی عشق کی تلقین اسے گھٹی سمجھ کر پلاتا تھا کہ گھٹی کا اثر کبھی نہیں جاتا، بلکہ وہ بہت مضبوطاور دیر پا اثر ہوتا ہے- انسان اس سے کسی طرح لڑ ہی نہیں سکتا- مگر جب الہیٰ بخش سمجھداری کی حدود میں داخل ہوا، تب بھی ابا کا فلسفہء عشق اس کے حلق سے کبھی نہیں اترا- التا اس کے اندر ایک مزاحمت پیدا ہو گئی- اس کے مزاج میں عشق سے بغاوت آگئی-
مگر الہیٰ بخش کو معلوم نہیں تھا کہ باپ کی عشق کی تلقین یاداشت کے آغاز سے بھی بہت پہلے سے اس کے ساتھ ہے- اس کی سماعت کے ایوان کا دروازہ پہلی بار اسی دستک سے کھلا تھا- اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ جب اس نے لکھنا سیکھا تو پہلے اپنے رب کا نام لکھا تھا- ہاں، اس کے باپ پیر بخش کو یہ سب کچھ یاد تھا-
پیر بخش اس رات کو کبھی نہیں بھولا- وہ رات اس کی زندگی کی اہم ترین رات تھی- اس رات وہ بہت مضطرب تھا اور گھر کے صحن میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا- کبھی وہ چارپائی پہ آبیٹھتا اور کمرے کے بند دروازے پر نظریں جما دیتا- جانے کتنی دیر یہ عمل دہرایا گیا، تب کہیں کمرے کا دروازہ کھلا اور دائی رشیدہ باہر آئی-
پیر بخش اٹھ کر اس کی طرف لپکا “آپا رشیدہ خیریت تو ہے نا’ ؟ اس نے دائی سے پوچھا-
پہلا پہلا بچہ ہے نا، معاملہ بگڑا ہوا ہے- بس تو دعا کر پیر بخش” دائی نے کہا-
“اللہ سب ٹھیک کرے گا آپا-” پیر بخش نے بڑے یقین سے کہا- پھر بے تاب ہو کر بولا “آپا تن نے روئی تو رکھ لی ہے نا؟”
رشیدہ نے اسے یوں دیکھا جیسے اس کے پاگل ہو جانے سے ڈر رہی ہو-
“دیکھو آپا بہت بڑی ذمہ داری ڈالی ہے تم پر”- پیر بخش نے گڑگڑا کر کہا- “پیدا ہوتے ہی اس کے کانوں میں روئی ٹھونس دینا-“
“وہ تو ٹھیک ہے میں یہ کر لوں گی- پر تو زینب کے لئے دعا کر-” رشیدہ نے کہا اور پلٹ کر کمرے میں چلی گئی-
پیر بخش پھرچارپائی پر بیٹھ گیا- مگر اب اس کے انداز میں اطمینان تھا- رات کے لمحہ چپکے چپکے دبے پاؤں گزرتے رہے- پیر بخش بیٹھا اپنے رب سے خیر و عافیت مانگتا رہا- اس کے ہونٹ ساکت تھے مگر دھڑکن دعا بن گئی تھی- پھر کمرے سے ابھرنے والی کرب ناک چیخوں نے اسے چونکا دیا- وہ پریشان ہو گیا- گھٹی گھٹی چیخوں کا وہ سلسلی رک نہیں رہا تھا- اس نے چہرہ آسمان کی طرف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھٹی گھٹی چیخوں کا وہ سلسلہ رک نہیں رہا تھا- اس نے چہرہ آسمان کی طرف کیااور زیرِ لب دعا کرنے لگا
“مالک۔۔۔! جیسے تُو نے ہمیشہ میری مشکل آسان کی اس مرتبہ بھی کر دے”
اس نے اللہ کو پکارا۔۔۔
“ربـا۔۔!تجھے تو سب معلوم ہے،نسلوں سے ہماری ایک ہی آرزو ہے۔۔وہ آرزو میرے دادے نے میرے باپ کو دی،میرے باپ نے مجھے دی اور میں اپنی اولاد کو دوں گا۔۔۔تجھ سے اور تیرے پیارے نبی (ص) سے محبت کی آرزو۔۔
پر ہم تو اس قابل ہی نہیں تھے۔ہم تو تیری غلامی کے قابل بھی نہیں۔رہا میں۔۔۔! تیرا بھکاری۔۔۔ تیرے سامنے جھولی پھیلاتا ہوں۔مجھے نصیب والی اولاد دے مالک۔۔اسے وہ محبت دے جس کی تڑپ مجھے میرے پرکھوں سے ملی ہے۔۔جس کو میری نسلیں ترستی رہیں ہیں۔ ہمارے بھاگ جگا دے مالک۔۔۔میں اپنی اولاد کے لیئے دنیا نہیں مانگتا۔
اللہ بادشاہ۔۔۔!مجھے تو سب جہانوں کی سب سے بڑی نعمت چاہیئے۔۔۔۔۔”
وہ گٓڑگڑائے جا رہا تھا۔۔اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھا اور آنکھیں فرطِ احترام سے بند تھیں اور اس کیفیت میں اسے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ بند پلکوں سے راہ بنا کر بہنے والے آنسوؤں نے اس کا چہرہ دھو دیا ہے۔۔۔
پھر وہ کیفیت دو آوازوں سے ٹوٹی۔ وہ یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ پہلی آواز کس کی تھی۔۔شائد دونوں ساتھ ہی شروع ہوئی تھیں۔،۔،
ان میں سے ایک تو فجر کی آذان تھی اور دوسری اس کے نومولود بیٹے کے رونے کی آواز۔۔۔وہ دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کر رہا تھا۔۔
آنسوؤں سے وضو کرنے والا پیر بخش روتے روتے مسکرایا۔۔اس نے آنکھیں کھول کر دروازے کی طرف دیکھا۔وہ اس طرف پہلا بے تاب قدم بڑھانے ہی والا تھا کہ ٹھٹک گیا
Leave a Reply