روسی ادب سے ایک کہانی:
ایک بوڑھا کسان اپنی بیمار بیوی کو کمزور گھوڑے کی کھینچی ہوئی گاڑی میں بٹھا کر دور دراز شہر علاج کے لیے لے جا رہا تھا۔
سفر لمبا تھا، راستہ سنسان۔ وہ آہستہ آہستہ بولنے لگا، جیسے خود سے بات کر رہا ہو، مگر درحقیقت، وہ اپنی بیمار بیوی کو تسلی دے رہا تھا۔ یہ عورت چالیس برس سے اس کے ساتھ تھی—ہر دکھ، ہر تکلیف، ہر تنگی میں اس کا ساتھ نبھایا تھا۔ کھیتوں میں کام کیا، گھر کا سارا بوجھ اٹھایا، مگر کبھی شکایت نہ کی۔
آج، اس سفر میں، کسان کے دل پر ایک عجیب بوجھ تھا۔ اچانک، اسے احساس ہوا کہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ سخت رویہ رکھتا رہا۔ کبھی نرمی سے بات نہ کی، کبھی محبت بھرے الفاظ نہ کہے۔ وہ سوچنے لگا:
“میں نے تم پر سختی کی، زندگی نے بھی تم پر سختی کی۔ میں روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں کبھی تمہیں پیار بھرے دو بول نہ کہہ سکا، کبھی وہ مسکراہٹ نہ دے سکا جو پانی کی طرح شفاف ہو، کبھی وہ لمحہ نہ دے سکا جس میں محبت اور اپنائیت ہو!”
راستے بھر وہ افسوس کے الفاظ دہراتا رہا، جیسے گزرے چالیس سالوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہو—ان الفاظ کے ذریعے، جو وہ ہمیشہ کہنے سے قاصر رہا۔ وہ وعدے کرتا رہا، خواب دکھاتا رہا کہ آئندہ وہ اسے ہر خوشی دے گا، ہر خواہش پوری کرے گا…
آخرکار، جب وہ شہر پہنچے، تو کسان اگلی نشست سے اترا، تاکہ پہلی بار اپنی بیوی کو بانہوں میں بھر کر ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ لیکن… وہ سرد ہو چکی تھی، بے جان۔
راستے میں ہی اس کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں… وہ ایک بھی محبت بھرا لفظ سن نہ سکی!
یہاں چیخوف کی کہانی ختم ہو جاتی ہے، مگر ہمیں وہیں چھوڑ جاتی ہے جہاں اکثر زندگی ہمیں لا کھڑا کرتی ہے—اس لمحے میں، جب ہم جاگتے ہیں، مگر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ہم آخر اپنوں کی قدر ہمیشہ آخر میں جا کر کیوں کرتے ہیں؟
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ:
وقت پر دیا گیا ایک پھول، سب سے قیمتی تحفہ ہوتا ہے، مگر دیر سے دی گئی دولت بھی بےکار ہو جاتی ہے۔
وقت پر کہے گئے محبت بھرے الفاظ سچے ہوتے ہیں، مگر جب جذبات مر جائیں، تو شاعری بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔
جو چیزیں دیر سے آتی ہیں، ان کا کوئی فائدہ نہیں—جیسے مرنے والے کے ماتھے پر معذرت کا بوسہ!
ہم زندگی کو بینک اکاؤنٹ سمجھ کر جیتے ہیں—محبت، نرمی، اپنائیت کو “کسی اور دن” کے لیے بچاتے رہتے ہیں۔
لیکن زندگی کوئی تجوری نہیں، جہاں محبت کو محفوظ رکھا جا سکے۔
یہاں سب کچھ “ابھی” ہے، اور “ابھی” ہی ختم ہو جاتا ہے!
ہم خوشی کو مؤخر کرتے ہیں، معافی کو ٹالتے ہیں، محبت کو روکتے ہیں، سوچتے ہیں “بعد میں کہہ دوں گا”…
لیکن “بعد” ہمیشہ نہیں آتا!
سچ یہ ہے کہ محبت وہ قرض ہے جو زندگی آپ سے واپس ضرور لیتی ہے—
یا تو مسکراہٹ میں، یا پھر آنسوؤں میں!
کسی کو وقت پر عزت دے دو، ورنہ قبر پر کتبہ لگوانا پڑے گا۔
کسی کو وقت پر محبت دے دو، ورنہ پچھتاوا ساتھ رہ جائے گا۔
کسی کو وقت پر معاف کر دو، ورنہ زندگی معافی کی مہلت بھی نہیں دے گی۔
زندگی کے سب سے قیمتی لمحات وہی ہیں، جو ابھی تمہارے پاس ہیں۔
انہیں ضائع مت کرو
انہیں محبت سے بھر دو،
انہیں زندہ رکھو!
کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی میں وہ وقت آ جائے، جب تمہیں کہنا پڑے…
“کاش میں نے اس سے پہلے کہہ دیا ہوتا!”
وقت پر دی گئی محبت مسکراہٹ میں بدلتی ہے، اور دیر سے دی گئی محبت پچھتاوے میں!
Leave a Reply