Current Time

Pakistan's Best News Websites

لباس، میڈیا اور ثقافت کا بدلتا چہرہ

لباس،میڈیا

آج ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں فیشن انڈسٹری اور میڈیا ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

وہ ایجنڈا کیا ہے؟ ہماری اقدار، حیا اور ثقافت کو آہستہ آہستہ مٹانا۔

کبھی پاکستان کی خواتین کا لباس باوقار اور مکمل پردے والا ہوتا تھا۔ شلواریں ٹخنوں سے نیچے، قمیضیں ڈھکی ہوئی، جسم کو مکمل ڈھانپنے والی، لیکن آج فیشن کی دوڑ میں یہی لباس چھوٹا اور محدود ہوتا جا رہا ہے۔

یہ Cultural Desensitization یعنی “تہذیبی بے حسی” ہے، جہاں رفتہ رفتہ ہمیں یہ سب “نارمل” دکھایا جا رہا ہے۔

ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور ڈراموں میں ایسے کردار سامنے لائے جا رہے ہیں جو فیشن کے نام پر مختصر لباس پہن کر ایک نیا “معیار” سیٹ کر رہے ہیں، اور ہماری نوجوان نسل، خاص طور پر لڑکیاں، ان کو دیکھ کر خود بھی وہی انداز اپنانے لگتی ہیں۔

اصل حقیقت کیا ہے؟

یہ جو اداکار اور اداکارائیں ہمیں ڈراموں اور میڈیا میں “آئیڈیل” بنا کر دکھائی جا رہی ہیں،

یہ حقیقت میں یہاں کی مقامی ثقافت یا عام انسانوں جیسی زندگی نہیں گزار رہیں۔

یہ لوگ زیادہ تر پاکستان سے باہر رہتے ہیں، مغربی زندگی گزار رہے ہیں، اور ان پر ایسے لباس، انداز اور رویوں کے لیے باقاعدہ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ مخصوص انداز میں ہمیں متاثر کریں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ کام سونپا جاتا ہے کہ وہ “فیشن” یا “ترقی پسندی” کے نام پر ہماری خواتین کے ذہنوں میں بے پردگی، بے حیائی اور روایتی لباس سے نفرت ڈالیں۔

یہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ پردہ یا مکمل لباس فرسودہ ہے، اور “آزادی” صرف مغربی انداز اختیار کرنے میں ہے۔

یہ بات غور طلب ہے:

یہ اداکارائیں، یہ ماڈلز، جو کپڑے پہن رہی ہیں، جو انداز اپنا رہی ہیں، یہ ان کی ذاتی زندگی کا حصہ نہیں بلکہ یہ ان کا کاروبار ہے۔

انہیں اس چیز کے لیے پیسہ دیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص کلچر کو پروموٹ کریں۔

جب آپ ان کو فالو کرتے ہیں تو حقیقتاً آپ لاعلمی میں اسی ایجنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

وہ نہ آپ کی گلیوں میں رہتی ہیں، نہ آپ کے جیسے مسائل کا سامنا کرتی ہیں، نہ وہ پاکستان کی متوسط اور مذہبی گھرانوں کی طرح زندگی گزارتی ہیں۔

مگر یہاں ہماری بچیاں، لڑکیاں اور خاندان ان کو دیکھ کر بے خبری میں وہی فیشن، وہی رویہ، اور وہی سوچ اپنا رہے ہیں۔

نفسیاتی پہلو

یہ عمل صرف ثقافتی یا فیشن کا مسئلہ نہیں رہا،

بلکہ یہ Desensitization اور Social Conditioning ہے،

جہاں میڈیا اور مشہور چہروں کے ذریعے دماغی تربیت کی جا رہی ہے کہ

“چھوٹے کپڑے اور بے حیائی = ترقی اور آزادی”

اور

“پردہ یا باحیا لباس = دقیانوسیت”۔

یہی وہ زہر ہے جو سست رفتاری سے ہماری سوچ، ہماری نسلوں اور ہمارے خاندانی ڈھانچے کو برباد کر رہا ہے۔

اختتام

اب وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں، سمجھیں کہ یہ “فیشن” نہیں، بلکہ تہذیبی غلامی ہے۔

اپنے گھروں، اپنی بچیوں، اپنی آنے والی نسلوں کو ان دلفریب جالوں سے بچائیں۔

ہمارا کلچر، ہماری روایات اور ہمارا لباس ہی ہماری اصل پہچان ہیں، انہیں معمولی دکھا کر مت مٹنے دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • X (Twitter)
  • Facebook
  • LinkedIn
  • More Networks
Copy link