Current Time

Pakistan's Best News Websites

“قاتل کی معافی”

قاتل کی معافی

مدینہ کے نواح میں ایک گاؤں تھا جہاں حمزہ نام کا ایک نوجوان رہتا تھا۔

وہ طاقتور اور جذباتی تھا، مگر غصے پر قابو نہ رکھ پاتا۔ ایک دن بازار میں معمولی جھگڑے نے اتنا شدید رخ اختیار کیا کہ حمزہ نے اپنے ہم عمر لڑکے کو چاقو گھونپ دیا۔ لڑکا موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ مقتول کے گھر والوں نے چیختی ہوئی حمزہ کی ماں کے سامنے کہا: *”تمہارے بیٹے نے ہمارا چاند چُرا لیا! اس کی سزا جہنم ہے!”*

حمزہ بھاگ نکلا۔ راتوں رات وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش ہو گیا۔ کبھی کسی غار میں چھپتا، تو کبھی درختوں کے نیچے سوتا۔

ہر رات اس کے کانوں میں مقتول کی ماں کی چیخیں گونجتیں۔ ایک دن اس نے ایک ٹوٹی ہوئی مسجد دیکھی جہاں ایک بزرگ نماز پڑھ رہے تھے۔ بزرگ نے اسے دیکھ کر پوچھا: *”بیٹا، تیرے چہرے پر گناہوں کا بوجھ کیوں ہے؟”*

حمزہ نے سارا واقعہ بتا کر گڑگڑایا: *”میں قاتل ہوں۔ کیا میرے لیے معافی ممکن ہے؟”*

بڑھاپے میں جھکے ہوئے بزرگ نے قرآن اٹھایا اور آیت پڑھی:

**”قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا”** (الزمر:53)۔

پھر کہا: *”توبہ کی تین شرطیں ہیں: اپنے جرم کا اعتراف، اللہ سے معافی مانگنا، اور جس کا حق مارا ہے، اسے واپس لوٹانا۔ تمہیں مقتول کے گھر والوں کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔”*

حمزہ کانپتا ہوا مقتول کے دروازے پر پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں اپنا وہی چاقو تھا جس سے اس نے جرم کیا تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور چیختے ہوئے کہا: *”میں قاتل ہوں! مجھے سزا دو!”*

مقتول کا باپ نکلا، اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ حمزہ نے چاقو اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا: *”میرا خون بہا کر اپنے بیٹے کا بدلہ لو۔”*

مرد نے چاقو اٹھایا، مگر اچانک اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ چیخا: *”تم نے میرے بیٹے کو چھین لیا، مگر… تمہاری ماں بھی تو تمہارے بغیر روئے گی!”* یہ کہہ کر اس نے چاقو زمین پر پھینک دیا۔

حمزہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی سیلاب بہہ نکلا۔ مقتول کے والد نے اسے گلے لگا لیا اور کہا: *”میں معاف کرتا ہوں… کیونکہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔”*

حمزہ نے اگلے دن سے اپنی زندگی بدل دی۔ وہ مقتول کے گھر والوں کی خدمت کرنے لگا، ان کے کھیتوں میں کام کیا، اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھا۔ لوگ ابتدا میں اسے *”خونخوار”* کہتے تھے،

مگر جب اس نے ایک قحط کے دوران گاؤں کے تمام غریبوں کو اپنی جائیداد بانٹ دی، تو لوگوں نے اسے *”ابو الغرباء”* کہنا شروع کر دیا۔

ایک رات حمزہ نے خواب دیکھا کہ اس کے گناہوں کا سیاہ کاغذ ایک نورانی ہاتھ سے سفید ہو رہا ہے۔ اُسے آواز آئی: *”اے حمزہ! تیری توبہ نے تیرے گناہوں کو مٹا دیا۔

اب تو ان لوگوں کے لیے مثال بن جا جو رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں۔”*

**سبق:**

اللہ کی رحمت ہر گناہ کو ڈھانپ لیتی ہے، بشرطیکہ بندہ سچے دل سے توبہ کرے اور مظلوم کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے۔

جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

**”توبہ کرنے والا گناہگار ایسے ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں”** (ابن ماجہ)۔ مقتول کے گھر والوں کی درگزر کی عظمت بھی اس کہانی کا حصہ ہے،

کیونکہ معاف کرنا اللہ کے نزدیک سب سے بڑا صدقہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • X (Twitter)
  • Facebook
  • LinkedIn
  • More Networks
Copy link