یہ خاموشی کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے، جیسے:
تنازع سے بچنا: شوہر چاہتا ہے کہ معاملہ مزید نہ بڑھے اور گھر کا سکون برباد نہ ہو۔
بلاوجہ بحث نہ کرنا: بعض مرد سمجھتے ہیں کہ جوابی ردِعمل دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
غصے کو قابو میں رکھنا: وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اپنی ناراضگی ظاہر کریں گے تو یہ لڑائی مزید بڑھ جائے گی۔
مگر بیوی کو ہوشیار رہنا چاہیے!
کیونکہ اگر شوہر نے زیادہ دیر خاموشی اختیار کی اور پھر غصہ پھٹ پڑا، تو نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں!
کچھ مرد اپنی تکلیف اور ناراضگی اپنے اندر رکھتے ہیں، لیکن جب حد پار ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی بیوی کو اپنا سب سے بڑا مخالف سمجھنے لگتے ہیں۔
تب وہ معاملے کو “رشتہ” کے طور پر نہیں، بلکہ “دو حریفوں کی جنگ” کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہاں بیوی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے، کیونکہ جب وہ اپنے احترام اور محبت کو خود کم کر چکی ہو،
تو بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا!
بیوی کا ردِعمل شوہر کے برعکس کیوں ہوتا ہے؟
اگر شوہر بیوی کے گھر والوں پر تنقید کرے، چاہے وہ درست ہی کیوں نہ ہو، تو بیوی فوراً لڑائی پر اتر آتی ہے۔
یہ جھگڑا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، کیونکہ عورت اپنے خاندان کے بارے میں کچھ سننا برداشت نہیں کر سکتی۔
اس کی وجہ جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔
عورت کے لیے اس کے والدین، بہن بھائی اس کی پہچان اور جڑ ہوتے ہیں۔
چونکہ وہ انہی کے درمیان پلی بڑھی ہوتی ہے، اس لیے وہ انہیں اپنی ذات کا ایک حصہ سمجھتی ہے، اور کسی بھی قسم کی تنقید کو اپنی شخصیت پر حملہ سمجھتی ہے۔
لیکن وہ شوہر کے گھر والوں کو اپنی زندگی کا ایک بیرونی حصہ تصور کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ شوہر کے اہلِ خانہ پر بے دریغ بات کر سکتی ہے، مگر اپنے والدین کے بارے میں ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ہوتی۔
یہ رویہ غیر منصفانہ کیوں ہے؟
کیونکہ جب شوہر کا دل اپنے والدین کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، تو وہ بھی ان کی عزت کا اتنا ہی مستحق ہوتا ہے جتنا بیوی اپنے گھر والوں کے لیے چاہتی ہے۔
لیکن مسئلہ تب بنتا ہے جب عورت یہ سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے کہ:
شوہر بھی اپنے والدین سے محبت کرتا ہے۔
اس کے دل میں بھی اپنے خاندان کے لیے عزت ہے۔
جب اس کی بیوی ان پر بات کرتی ہے، تو اسے بھی وہی تکلیف ہوتی ہے جو بیوی کو اپنے والدین پر تنقید سن کر محسوس ہوتی ہے۔
ازدواجی زندگی میں عدم توازن کیوں پیدا ہوتا ہے؟
کچھ خواتین یہ سوچتی ہیں کہ مرد کی خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ وہ کمزور ہے، یا اسے فرق نہیں پڑتا۔
وہ یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ شوہر کو صبر کرنا چاہیے، لیکن خود وہ ایک معمولی سی بات پر بھی برداشت نہیں کرتیں۔
ان کا خیال ہوتا ہے کہ شوہر کو ان کے والدین کی عزت کرنی چاہیے، لیکن وہ خود شوہر کے اہلِ خانہ کو نظر انداز کر سکتی ہیں۔
یہ ایک دوہرا معیار ہے، جو آہستہ آہستہ شوہر کو اپنی بیوی سے دور کر دیتا ہے، اور یہ فاصلے وقت کے ساتھ مزید بڑھ سکتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
احترام باہمی کا اصول اپنایا جائے۔
جیسے بیوی کو اپنے گھر والوں پر تنقید برداشت نہیں، ویسے ہی شوہر کو بھی اپنے والدین کے لیے برا سننا گوارا نہیں ہوتا۔
رشتے میں برابری ہونی چاہیے۔
اگر بیوی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے والدین کا احترام کرے، تو اسے بھی شوہر کے والدین کی عزت کرنی چاہیے۔
زبان اور لہجے میں نرمی لائی جائے۔
کسی بھی رشتے میں سخت لہجے اور تلخ الفاظ نقصان دہ ہوتے ہیں، خاص طور پر جب بات خاندانوں کی ہو۔
غصے اور ضد کی بجائے سمجھوتے کا رویہ اختیار کیا جائے۔
ازدواجی زندگی کی مضبوطی اسی میں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کریں اور چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا سیکھیں۔
اللّٰہ تعالیٰ تمام مومن گھرانوں میں محبت اور سکون پیدا کرے، اور انہیں ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین!
Leave a Reply