ایک عظیم عورت، عظیم کام، جو رھتی دنیا تک تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
کبھی کبھی کوئی اتنی محبت دے جاتا ھے کہ ہم چاہ کر بھی اس کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے۔ ایسی ہی ایک حسین پری 1960ء میں کراچی آئی اور پھر یہیں کی ہوکر رہ گئی۔
اس نے خدمت، محبت، اپنائیت خلوص اور اپنے پن کی وہ مثال قائم کی۔ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
تیس سال کی تھیں جب کراچی آئیں یہاں اس وقت کوڑھ (Leprosy) کا مرض پھیلا ھوا تھا۔ اس وقت اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا۔
اس بیماری میں جسم کے حصے گلنا سڑنا شروع ھو جاتے ہیں اور زخموں سے انتہائی بدبو آتی ہے۔
یہ ایک چھوتی مرض (Contagious) بھی تھا. مریض کے اپنے اسے گھر سے نکال دیتے۔ یہ لوگ بھیک مانگتے اور سسک سسک کر مر جاتے۔
ایسے میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ان کا علاج شروع کیا۔ ان کے لیے سینٹر قائم کیے۔
اپنی محنت لگن سے انھوں نے اس مرض
پر قابو پالیا۔ پاکستان میں 157 سینٹر قائم کیے۔
اپنے حصے کا کھانا مریضوں کو کھلایا,
ان کی مرہم پٹی کی, ان کو حوصلہ دیا, جینے کی آس دلائی۔انہوں نے اردو زبان سیکھ لی.
جب پاکستانی لباس پہنتی اور سر پہ
دوپٹہ اوڑھ لیتیں تو کوئی آسمان سے
اتری ھوئی پری دکھائی دیتیں۔ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی۔
اپنے وطن واپس نہیں گئیں۔ وصیت
کی کہ مجھے پاکستان میں ہی دفنایا
جائے۔
ان کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا،
ان کو مدر روتھ فاؤ بھی کہا جاتا ہے۔
لیکن مجھے لگتا ہے ہم اور ہماری آئندہ نسلیں بھی ان کی محبت اور قربانی کی مقروض رہیں گی..
Leave a Reply