میرا اکلوتا بیٹا ایک ایسی لڑکی سے شادی کر بیٹھا جسے اس نے میری مرضی کے خلاف صرف اس لیے چُنا کہ وہ اس سے محبت کرتا تھا یہ بات مجھے اس میں اپنی اولاد کی محبت کی حریف نظر آنے لگی میں نے بیٹے کی آنکھوں میں اس کے لیے ایسا شوق دیکھا جس نے میرے دل میں حسد کی آگ بھڑکا دی میں نے برسوں اسے پالا اور وہ میری سب سے بڑی ترجیح رہا لیکن اب یہ لڑکی ان تمام سالوں کے بعد میرے ساتھ اس کا حق بانٹنے لگی تھی یہی خیال میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا
شادی کے بعد وہ دونوں اس فلیٹ میں رہنے لگے جو اس کے والد نے وفات سے قبل اس کے لیے چھوڑا تھا میں نے اپنے بیٹے کو میٹھی میٹھی باتوں سے مجبور کیا کہ وہ کام کے بعد سارا دن میرے ساتھ گزارے اور رات کو ہی اپنے گھر لوٹے میں سمجھتی تھی کہ اس طرح میں اس لڑکی کو دکھی کر دوں گی اور ان کا رشتہ زیادہ دیر نہ چل سکے گا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے دور رہیں گے مگر مجھے حیرت تب ہوئی جب وہ ہر صبح میرے بیٹے کے ساتھ میرے گھر آنے لگی ناشتہ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی اور جب بھی میں اس کے کھانے کو معمولی ثابت کرنے کی کوشش کرتی تو وہ مسکرا کر نرمی سے کہتی کہ مجھے میرے طریقے سکھا دیں تاکہ میں سیکھ سکوں
جب بھی میں اسے کوئی تلخ یا کَسِیلِی بات کہتی وہ خاموشی اور مسکراہٹ سے جواب دیتی جو شروع میں میرے غصے کو اور بھڑکا دیتی یہاں تک کہ ایک دن ہم میں جھگڑا ہوگیا جس کی شروعات میں نے خود کی تاکہ اس کے اندر کی بُری باتیں باہر نکال سکوں اس سے پہلے کہ میرا بیٹا کام سے واپس آ جائے لیکن میں نے اس کی
آنکھوں میں اس وقت بھی خاموشی اور اداسی دیکھی جب میں نے اسے ایسی باتیں کہیں جو اس کی نسوانیت کو زخمی کر رہی تھیں پھر وہ میرے گھر سے نکل گئی اور اپنے اپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہو گئی آنکھوں میں آنسو جنہیں وہ مزید روک نہ سکی
مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ اس نے غصے میں بھی اپنے جذبات قابو میں رکھے مجھے معلوم نہیں کیوں اس بار میں نے اپنے بیٹے کے سامنے اس کی شکایت نہیں کی اس رات جب وہ میرے گھر نہیں آئی تو مجھے ایک طرف اس پر ندامت ہوئی اور دوسری طرف یہ خوف بھی کہ کہیں وہ میرے بیٹے کو سب کچھ بتا نہ دے مگر میرے خدشات اس وقت دور ہوئے جب میرا بیٹا آیا اور اپنے ہاتھ میں ایک ریستوران سے منگوایا ہوا کھانا لایا اور کہا
میری بیوی تھک گئی ہے اور جلدی سو گئی اس نے مجھے کہا کہ تمہارے لیے کھانا باہر سے منگوا لوں تاکہ تم پر بوجھ نہ بنے
کیا اس نے تمہیں کچھ نہیں بتایا؟
نہیں کچھ نہیں لیکن اس کی آنکھوں میں میں نے غم دیکھا جس نے میرا دل توڑ دیا
پھر وہ بولا اماں شادی کے ایک ہفتے بعد میں نے تمہارا اس کے ساتھ رویہ محسوس کیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ تمہیں جواب کیوں نہیں دیتی جبکہ وہ عام طور پر کسی کی بات برداشت نہیں کرتی تمہیں پتہ ہے اس نے مجھے کیا جواب دیا؟ اس نے کہا ایک بات جو میں کبھی نہیں بھولا “اگر برائی کا جواب بھلائی سے دیا جائے تو وہ کبھی نہ کبھی بھلائی میں بدل جاتی ہے
وہ تم میں اپنی اس ماں کو دیکھتی ہے جس کی نہ اس نے خوشبو جانی نہ لمس
اس نے کبھی تمہاری سختیوں کی شکایت کی نہ تمہاری تلخ باتوں کا جواب تلخی سے دیا حالانکہ وہ ایسا کر سکتی تھی
اسی وجہ سے میں نے اسے اپنی زندگی کا ساتھی بنایا
وہ تمہاری محبت کی حریف بننے نہیں
آئی اماں
خدا کی قسم اگر دنیا کی ساری عورتیں بھی جمع ہو جائیں تو وہ تیرے دل میں میرے لیے جو محبت ہے اس کا چوتھائی بھی حاصل نہیں کر سکتیں
تم میری ماں ہو جس نے مجھے جنم دیا اور میرے لیے راتیں جاگ کر گزاری ہیں
اور وہ میری محبوبہ ہے جو میرے کٹھن دنوں میں میرے ساتھ کھڑی ہے
تمہارے قدموں تلے جنت ہے
اور وہ ہے جس نے میری زندگی کو جنت بنا دیا
اماں میں نے نیک عورت پائی ہے اسے اپنی وہ بیٹی سمجھو جسے تمہاری کوکھ نے جنم نہیں دیا
اس رات کے بعد میرا رویہ اس کے ساتھ مکمل بدل گیا کیونکہ میرے بیٹے کے الفاظ نے میری آنکھوں پر چڑھا غفلت کا پردہ ہٹا دیا میں نے واقعی اس کے اندر حسن اخلاق اور دل کی نرمی کو پہچانا وہ میری خدمت میں کبھی نہیں کترائی یہاں تک کہ جب میرے بیٹے کے حالات خراب ہوگئے تو اس نے اپنے زیورات بیچ دیے اور ہر چیز میں کفایت شعاری اختیار کی تاکہ میرے بیٹے پر بوجھ نہ پڑے
میں نے ہر نماز میں اسے یہ دعا کرتے سنا کہ یا اللہ میرے دل اور میری ساس کے دل میں میری محبت پیدا کر دے
تب میں نے جانا کہ اس نے جو کہا تھا کہ برائی کا جواب بھلائی سے دو تو وہ بھلائی میں بدل جائے گی تو وہ سچ تھا
Leave a Reply